—-کام یاب ہے وہ شخص

پیارے بچو ! قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے مختلف چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں ۔

مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جن چیزوں کی اللہ جل شانہ نے قسم کھائی ہے ، ان میں وہ چیز  ہیں جو اللہ جل شانہ کی قدرت پر دلالت کرنے میں بہت زیادہ واضح  ہیں      یا ان کا نفع      خوب زیادہ ہے یا جن میں غور وفکر کرنے سے ذہن اللہ جل شانہ کی وحدانیت پر جلد پہنچتا ہے ۔

سورۃ الشمس کے شروع میں اللہ جل شانہ نے سات قسمیں کھائیں ہیں : ( 1 ) قسم ہے سورج کی اور ( 2 ) قسم ہے چاند کی جب وہ سورج کے پیچھے چلے ( یعنی سورج غروب ہونے کے بعد طلوع ہو جاۓ ) ۔ ( 3 ) قسم ہے دن کی جب وہ زمین کو روشن کر دے ۔ ( 4 ) قسم ہے رات کی جب وہ زمین پر بچھا کر اسے چھپا لے ۔ ( 5 ) قسم ہے آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اسے بنایا ۔ ( 6 ) قسم ہے زمین کی اور اس ذات کی جس نے اس کو بچھایا ۔ ( 7 ) قسم ہے نفس کی اور اس ذات کی جس نے اس کو اچھی طرح بنایا اور یہ کہ نفس کو بدکاری اور تقوی کی سمجھ دی ۔ اللہ جل شانہ نے یہ سب قسمیں کھانے کے بعد فرمایا : ’ ’ وہ آدمی کام یاب ہوا جس نے نفس کو پاک صاف کیا ۔

( سورۃ الشمس ، آیت : 9 ) اگر جسم میلا ہو جاۓ یا اس پر گندگی لگ جائے یا اس سے پینے کی بدبو آنے لگے تو فوراً نہاتے ہیں ۔ جسم سے نجاست اور گندگی کو دور کرتے ہیں کیوں کہ جسم کو پاک صاف رکھنا ضروری ہے ۔ اگر جسم کی پاکی اور صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو وہ میلا ہو جاتا ہے اور لوگ ایسے میلے اور گندے شخص سے کراہت محسوس کرتے ہیں ۔ یاد رکھیے جسم سے بڑھ کر روح کی پاکیزگی اور صفائی کیوں کہ انسان صرف جسم کا نہیں بلکہ روح اور جسم کا نام ہے ، یہ دونوں مل کر ’ ’ انسان ‘ ‘ کہلاتے ہیں ۔

اگر جسم سے روح نکل جاۓ تو کہا جا تا ہے کہ فلاں آدمی کا انتقال ہو گیا اور وہ اس دنیا سے کوچ کر گیا ، حالاں کہ وہ سامنے لیٹا ہوتا ہے اور اس کا پورا جسم موجود  ہوتا ہے لیکن روح نکل جانے سے جسم کا ہونا نہ ہونا بے کار ہو جاتا ہے ، معلوم ہوا کہ جسم کو پاک و صاف رکھنا ہی ہے لیکن اس سے کئی درجہ بڑھ کر روح کو پاک و صاف رکھنا ضروری ہے ۔ انسان کی روح کو خراب اور میلا کرنے والی دو چیزیں ہیں : ( 1 ) شیطان ، جو انسان کی روح کو مختلف گناہوں پر آمادہ کرتا رہتا ہے کہ نماز چھوڑ دو ، روزہ نہ رکھو ، زکوۃ نہ دو ، حرام کھاؤ وغیرہ ۔ ( 2 ) روح کے اندر ایک چیز ہے جسے نفس کہتے ہیں اور اس کو ’ ’ نفس امارہ ‘ ‘ بھی کہتے ہیں ۔ یہ انسان کی اندرونی خواہشات اور شہوات ہیں ۔

اگر شیطان انسان کو نہ بھی ورغلائے تو انسان کی اندرونی خواہشات اس کو گناہوں پر اکساتی رہتی ہیں ۔ اللہ جل شانہ نے سات قسمیں کھا کر یہ حقیقت ارشاد فرمائی کہ وہ آدمی کام یاب ہوا جس نے نفس کو پاک و صاف کیا ۔ نفس اور روح کو پاکیزہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل میں جوانی خواہشات اور اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، انہیں ابھار کر ان پر عمل کیا جائے اور جو میری خواہشات یا جذبات پیدا ہوتے ہیں انہیں دبایا جاۓ ۔ 

ای طرح مسلسل مشق کرتے رہنے سے نفس پاکیزہ ہو کر ” نفس مطمئنہ بن جاتا ہے ، جس کا ذکر سورۃ الفجر کی آخری آیتوں میں ہے ۔ پیارے بچو ! اگر جسم یا کپڑے میلے ہو جائیں ، وہ دھونے سے پاک ہو جاتے ہیں ، اسی طرح معاملہ ہے اس روح کا کہ جب وہ گناہوں سے آلودہ ہو جاۓ تو اس کو پاک صاف کرنے کے لیے توبہ کی جاتی ہے ، تو بہ اسے دوبارہ پاک صاف کر دیتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک پیاری دعا ہے ۔

اللهم آت نفسي تقواها وزكها أنت خير من زكها أنت وليها ومولاها .   ( صحیح مسلم ، کتاب الذكر والدعاء : 2722 ) اے اللہ ! میرے نفس کو اس کا تقوی عطا فرما دے اور اس کو  پاک صاف کر دے ، تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے ، تو اس کا ولی اور مولی ہے ۔ روح کو پاکیزہ واجلا بنانے کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی بکثرت کرنی چا ہے

Leave a Comment