شاعر مشرق علامہ اقبال Urdu Storie

  1. علامہ محمد اقبال آباء و اجداد کا تعلق کشمیری پنڈت سے تھا۔ ان کی گوت ” پر تھی۔ سپرو کشمیری زبان کا لفظ ہے۔ سپر و علوم وفنون میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ ہندو ہونے کے باوجود مسلمانوں کی زبان فارسی پر کمال رکھتے تھے۔ اس طرح انہیں اسلامی حکومت کا اعتماد حاصل رہا۔ لفظ سپرو کا تعلق ایران کے قدیم

بادشاہ شاہ پور سے ہے۔ علامہ محمد اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق نے 1861ء میں سیال کوٹ کے محلہ کھٹیکان میں رہائش اختیار کی۔ بعد میں وہ دروازہ مسجد کے قریب محلہ کشمیری میں مکان خرید کر وہاں رہنے لگے۔ اس کے صحن کا دروازہ محلہ چوڑی گراں میں کھاتا تھا۔ شیخ محمد رفیق کے صاحب زادے هیچ نور محمد کے ہاں 9 نومبر 1877ء کو علامہ محمد اقبال پیدا ہوئے۔ شیخ نور محمد نو پیاں بناتے تھے۔ ان کی دکان پر کئی شاگرد بھی کام کرتے تھے جو ننھے اقبال کو خوب پیار کرتے، اٹھاتے اور کھیلاتے رہتے تھے۔ علامہ محمد اقبال کے ایک بڑے بھائی شفیع عطا محمد بھی تھے، جو ان سے سترہ برس بڑے تھے۔ وہ چھوٹے بھائی سے بے حد محبت کرتے تھے۔ علامہ محمد اقبال کی تین بہنیں بھی تھیں۔ ان کی والدہ امام بی بی نیک اور سادہ خاتون تھیں۔ اس چھوٹے سے گھرانے میں علامہ محمد اقبال کا بچپن گزرا۔ ابھی علامہ محمد اقبال کی عمر دو سال ہی تھی کہ ایک بیماری نے سب گھر والوں کو پریشان کر دیا۔ کچھ دنوں بعد علاج سے ٹھیک تو ہو گئے مگر بینائی (دیکھنے کی صلاحیت) پر برا اثر پڑا۔

سات برس کی عمر میں انہیں ناظرہ قرآن پاک پڑھنے کے لیے عمر شاہ کے پاس مدرسہ بھیجا گیا۔ ان کی ہم جماعت کرم بی بی کہا کرتی تھی: “ہم ایک ساتھ پڑھتے، پڑھائی کے بعد کھیل کو بھی کرتے۔ اقبال بڑا شریر تھا، طرح طرح کی شرارتیں کر کے وہ خود ہنستا اور ہمیں بھی ہنساتا ۔ پڑھنے لکھنے میں بلا کا تیز ۔ معلوم ہوتا کہ اسے پہلے ہی سے سب کچھ یاد تھا۔ اس کے بعد علامہ محمد اقبال کو اسکول کی تعلیم کے لیے اسکاچ مشن میں پہلی جماعت میں داخل کرایا گیا۔ پہلی جماعت میں اوّل آئے۔ اس کے بعد وہ مولوی میرحسن سے پڑھنے لگے۔ ان کے اساتذہ علامہ محمد اقبال سے پیار و محبت سے پیش آتے تھے۔ کیوں نہ آتے ، علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی شیریں زبان اور استاد کے احترام کے سبب سب کے دل میں اپنے لیے جگہ بنالی تھی۔ ان کے بچپن کا یہ مشہور واقعہ ہے کہ ایک روز وہ دیر سے جماعت میں آئے۔ استاد نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا: “اقبال دیر ہی سے آیا کرتا ہے۔ یہاں اقبال سے مراد بلند مرتبہ اور عزت کے ہیں۔ ایک چھوٹے سے بچے سے ایسا با معنی جواب سن کر استاد چونکے۔ انہیں سینے سے لگا لیا کیوں کہ وہ اس کے اندر چھپی صلاحیتوں ۔
کو بھانپ گئے تھے۔ علامہ محمد اقبال اسکول میں ہم نصابی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتے۔ بیت بازی (اشعار کا مقابلہ ) ہو یا تقاریر کا مقابلہ کوئی بھی محفل ہو، علامہ محمد اقبالؒ کی شرکت اس میں لازمی سمجھی جاتی تھی۔

علامہ محمد اقبال کے والد شیخ نور محمد صرف ناظرہ قرآن پاک پڑھے ہوئے تھے۔ وہ قرآن پاک کی تلاوت روزانہ باقاعدگی سے کرتے تھے۔ وہ اپنے بیٹے محمد اقبال کو بھی تلاوت کرنے کی تلقین کرتے ۔ وہ اقبال سے فرماتے:

کیوں نہ تم اس کی تلاوت اس طرح کرو جیسے یہ تم پر نازل ہو رہا ہے۔ ایسا کرو گے تو یہ تمہاری روح میں اتر جائے گا۔ بچپن میں علامہ محمد اقبال کو کبوتر پالنے کا بھی شوق رہا۔ اس زمانے میں یہ شوق شرفاء میں بے حد مشہور تھا۔ کبوتر بازی کے اس مشغلے میں ان کے ساتھی ، مولوی میرحسن کے صاحبزادے سید محمد تقی ہوتے تھے۔ دونوں گھنٹوں اپنے اپنے مکان کی چھتوں پر آسمان پر

نظریں جمائے کبوتروں کی اڑان سے لطف اندوز ہوتے ۔ علامہ محمد اقبال کا ایک اور شوق پتنگ بازی بھی رہا۔ وہ ہوا میں پتنگ بھی اڑاتے رہتے تھے۔ پتنگ بازی کا یہ شوق آج بھی پنجاب کی ثقافت کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ شرارتوں سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ اپنی بڑی بہن کریم بی بی کی گڑیوں کو  توڑنا اور ادھیڑنا بھی انہیں پسند تھا۔ بعد میں بڑی بہن ان سے خوب لڑتی ۔ ذرا بڑے ہوئے تو انہوں نے پہلوانی بھی کی۔ و با قاعدہ لنگوٹ باندھ کر اکھاڑے میں اترتے تھے۔ پہلوان کے تمام شوق بھی اختیار کیے جیسے جسم پر تیل کی مالش اور ڈنڈ بیٹھک

نکالنا وغیرہ۔ ابھی نویں یا دسویں جماعت کے طالب علم تھے کہ انہوں نے مرزا داغ دہلوی کو شاعری میں اپنا استاد بنا لیا۔ داغ دہلوی نے ان کے لیے کہا کہ انہیں اصلاح کی ضرورت نہیں۔ بعد میں ان کے درمیان خط و کتابت بھی رہی۔ علامہ محمد اقبال کی پہلی غزل رسالہ “زبان” دہلی کے شمارے نومبر 1893ء میں شائع ہوئی جس میں آٹھ اشعار تھے۔ بعد میں وہ دیگر شعراء سے بھی اصلاح لینے لگے۔

جب علامہ محمد اقبال کالج میں داخل ہونے لگے تو آپ کے والد نے آپ سے عہد لیا کہ تم تعلیمی زندگی میں کام یاب ہونے یر کے بعد اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کر دینا۔ آپ اس عہد پر ساری زندگی قائم رہے۔ علامہ اقبال کو ابتداء ہی سے علم حاصل کرنے کا شوق رہا۔ آپ نے 1805ء میں لندن کا سفر کیا اور کیمبرج یونی ورسٹی سے فلسفہ اخلاق میں سند حاصل کی۔ اس کے بعد جرمنی کی ایک یونی ورسٹی سے تحقیقی مقابلہ ایران میں فلسفہ مابعد الطبیعات کا ارتقاء“ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ جب آپ کا یہ مقالہ انگلستان سے شائع ہوا تو یورپ کے عالموں پر آپ کی قابلیت کی دھاک بیٹھ گئی۔ کئی لوگوں نے آپ کے مقالے پر تبصرے تحریر کیے اور آپ کو کئی مقامات پر لیکچر دینے کے لیے بلایا گیا۔ چنانچہ آپ نے اسلام پر چھ لیکچر دیئے۔ ان خطبات نے آپ کی فلسفیانہ اور مذہبی

معلومات کی دھوم مچا دی۔ اسی دوران علامہ اقبالؒ نے وکالت کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ اس کے بعد لندن کے اسکول آف پولیٹیکل سائنس میں بھی تعلیم حاصل کی اور سند حاصل کی۔ انگلستان سے واپس آنے کے بعد علامہ محمد اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانے لگے۔ اس دوران انہیں خصوصی رعایت بھی تھی کہ وہ ہائی کورٹ میں قانونی پریکٹس (وکالت ) کر سکتے ہیں اور جج صاحبان کو یہ ہدایت بھی دی گئی تھی کہ وہ علامہ محمد اقبالؒ کے مقدمات ان کے آخری حصے میں رکھا کریں۔  1918ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج کی ملازمت چھوڑ دی۔ آپ کے خادم خاص علی بخش نے پوچھا کہ آپ نے اس ملازمت سے استعفیٰ کیوں دیا؟ فرمانے لگے: علی بخش! انگریز کی ملازمت میں بڑی مشکلیں ہیں۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ میرے دل میں کچھ باتیں ہیں جنہیں میں لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہوں، مگر انگریز کا ملازم رہ کر نہیں کہہ سکتا۔ اب میں بالکل آزاد ہوں، جو چاہوں کروں، جو چاہوں کہوں۔ آپ نے 1926ء میں سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ 1930ء کے مسلم لیگ کے مشہور اجلاس جو الہ آباد میں ہوا، اس کی صدارت آپ نے ہی کی تھی اور اپنا مشہور خطبہ بھی پیش کیا تھا۔ انہوں نے دو گول میز کانفرنسوں میں شرکت کی۔ 21 اپریل 1938ء کو عالم اسلام کا یہ ستارہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ کا مزار بادشاہی مسجد کے ساتھ لاہور میں ہے۔ علامہ اقبال کے نظریات و افکار اور ان کی شاعری امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہیں ۔  

Leave a Comment