پانج روپے میں پانچ سو کا کام urdu storie

یہ اس کا دوسرا دن تھا۔ وہ صبح سے کئی دفعہ ایک کاؤنٹر سے دوسرے اور پھر تیرے پر جا رہا تھا مگر افسوس کام ہونے کی کوئی امید پیدا نہیں ہوئی تھی جبکہ آدھا دن ڈھل چکا تھا۔ وہ مایوسی کے عالم میں ادھر سے ادھر ٹہلنے لگا کہ شاید کوئی غیبی مدد آ جائے۔ اس کی نظریں مسلسل کاؤنٹر کے اس طرف بیٹھے عملے پر تھیں۔ اسی اثناء میں ایک اہلکار کو کمرے سے نکل کر ایک سمت جاتا دیکھ کر وہ تیزیسے اس کی جانب لپکا۔ 
معاف کیجئے گا جناب میرا جینین (genuine) کام ہے اور میں دو دن سے پریشان پھر رہا ہوں۔ سمجھ نہیں آ رہا کس کے پاس جاؤں اور کون میرا مسئلہ حل کرے گا ۔ اہلکار مسلسل چلتا جا رہا تھا ، وہ اس دفتر کا سب سے معروف آفیشل لگتا تھا۔ وہ رکا نہیں نہ ہی گردن گھما کر اس کی طرف دیکھا بس چلتے چلتے کہا۔ ” جلدی بتاؤ کام کیا ہے؟ میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے۔“ اس نے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کاغذات اہلکار کے ہاتھ میں پکڑائے اور مختصراً اپنے کام کی تفصیلات بتائیں۔ اہلکار ڈبل مائینڈ ڈ لگتا تھا۔ اس کا دھیان کہیں اور تھا، وہ بے دھیانی سے کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک کاغذ نکال کر اس کی طرف بڑھایا اور کہنے لگا۔ آپ کا کام ہو جائے گا۔ آپ اس کاغذ کی فوٹو کاپی کروا لیں اور
ہاں کا غذات کے اندر ہرے رنگ کا ایک نوٹ رکھ کر سامنے والے کاؤنٹر پر آجائیں، میں آپ کو وہیں ملوں گا۔ اہلکار نے کاغذات اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کاؤنٹر کی طرف اشارہ کیا۔ “میری جیب میں اتنے پیسے تو ہیں ! سوچتے ہوئے وہ فوٹو کاپی کروانے دفتر سے باہر جانے لگا۔
کاپی کروا کر واپس آتے ہوئے اسے اپنی بیٹی کی بات یاد آ گئی جو آج صبح اپنا پھٹا ہوا اسکول بیگ دکھاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ بابا! آج ضرور میرا بیگ لے آنا، کہیں اس میں سے کتابیں نہ گر جائیں۔ ان پیسوں سے بیٹی کے لیے اسکول بیگ تو آ سکتا تھا۔ میرے پاس تو یہی بچت تھی آمدنی کا کوئی اور ذریعہ بھی نہیں۔ کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ یہاں پبلک کا کوئی کام بنا منت سماجت، سفارش یا پیسے کے ہو جائے۔ کاش اندر ائیر کنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھے حکومتی اہلکاروں کو باہر دھوپ ، گرمی، سردی یا تیز ہوا میں کھڑے عام آدمی کے دکھ درد کا احساس ہو جائے ، ایسا ہو تو یہ ملک جنت بن جائے۔ وہ دکان سے فوٹو کاپی کروا کر اپنا داھنا ہاتھ پینٹ کی جیب میں رکھے بے دھیانی میں چلا آ رہا تھا کہ ایک آواز پر چونک گیا۔ اللہ کے نام پر دے دو بیٹیا۔“ اس نے آنکھ اٹھا کر دیکھا ، وہ ایک ضعیف العمر بڑھیا تھی ۔ اس نے جیب سے ہاتھ نکالا۔
پانچ روپےکا سکہ جو ابھی ابھی فوٹو کاپی والے نے واپس کیا تھا، اس کے ہاتھ میں تھا۔ یہ لو اماں ! “ اس نے سکہ اماں کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ اللہ تمہارے کام میں آسانی کرے۔“ اماں کی دعا سن کر اس نے ” آمین کہا۔ وہ دفتر کے گیٹ سے اندر داخل ہوا اور متعلقہ کاؤنٹر پر پہنچا۔ کاؤنٹر پر کسی اور کو بیٹھا دیکھ کر اسے تھوڑی مایوسی ہوئی، تاہم یہ سوچ کر کہ چلو اس سے بات کر کے دیکھتے ہیں، وہ کاؤنٹر کی جانب بڑھا۔ یہ ایک نوجوان اہلکار تھا جس کے چہرے پر روایتی سختی اور لاتعلقی کی بجائے نرمی، اپنائیت اور شائستگی تھی۔ اس نے کاغذات کلرک کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔ اس کی پوری بات اطمینان سے سننے کے بعد نوجوان کا غذات لے کر اندر کمرے میں بیٹھے افسر کے پاس گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آ کر کہنے لگا۔
” آپ کچھ دیر انتظار کریں۔“ کلرک کی بات سن کر وہ سامنے رکھے بینچ پر بیٹھ گیا اور بیٹی کے اسکول بیگ کے بارے میں سوچنے لگا جو لگتا تھا اس مہینے میں بھی نہیں آپائے گا۔ اس کا ہاتھ جیب میں رکھے پانچ سو روپے کے نوٹ پر مضبوطی سے جما ہوا تھا کہ نوجوان کلرک کی میٹھی آواز پر وہ جلدی سے کاؤنٹر کی طرف بڑھا۔ انکل آپ اندر آ جائیں”
وہ ائیر کنڈیشنڈ ہال میں نوجوان کے پاس رکھی خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ نوجوان نے چند ضروری معلومات اس سے پوچھ کر کمپیوٹر میں درج کیں اور ایک پرنٹ نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا۔ ”یہ لیں جناب آپ کا سرٹیفکیٹ ۔“
اسے یقین نہ آیا کہ دو دن مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زن رہنے کے بعد کام اس قدر جلدی بھی ہو سکتا تھا۔ وہ کبھی ہاتھ میں پکڑے ٹیفکیٹ کو اور کبھی نوجوان کلرک کو حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے دیکھ رہا تھا۔ اس بے یقینی میں اسے تھوڑی دیر قبل دی ہوئی اماں کی دعا یاد آگئی ۔ اللہ تمہارے کام میں آسانی کرے۔“ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔ پانچ روپے میں پانچ سو
کا کام۔ واہ میرے مولا تیرے کام تو ہی جانتا ہے یقینا تو نے انسانوں کے درمیان فرشتے بھی مقرر کر رکھے ہیں جو تیرے بے آسرا بندوں کے کام کرتے ہیں ورنہ یہ دنیا تو مصاب کا گھر بن جائے۔” “جناب! آپ کا کام ہوگیا ہے یہ کمپیوڈائزڈ سرٹیقیت ہے اس میں کسی آفیسر کے سائن کی ضرورت نہیں ہے۔ جی بیٹا۔“ وہ کرسی سے اٹھا، نوجوان کو گلے لگایا اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔

Leave a Comment