Urdu Stories چالاک مہاجن ک کہانی

کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا ۔ اس کے دادا نے اپنے زمانے میں دوسرے گاؤں کے مہاجن سے اپنا کھیت گروی رکھ کر کچھ رقم ادھار لی تھی ۔ گھر کی چھت مرمت کرنے کی غرض سے لی گئی یہ رقم اگر چہ بہت کم تھی مگر اس پر سود اتنا زیادہ لگ چکا تھا کہ اب دادا کے قرض کی رقم پوتے کو ادا کرنا پڑ رہی تھی ۔ پچاس سال میں سو روپے کی سید رقم بڑھ کر سود سمیت ایک ہزار روپیہ بن چکی تھی ۔ جس زمانے کی کہانی ہم آپ کو سنا رہے ہیں اس زمانے میں ایک ہزار روپیہ بہت بڑی رقم تھی ، اس لیے کسان ہمیشہ پریشان رہتا کہ شاید وہ بھی بھی اپنے دادا کے قرض کی رقم اور اس کا سود ادا نہیں کر پائے گا اور نہ ہی اپنا کھیت مہاجن سے واپس حاصل کر سکے گا ۔
کسان کو ہر ماہ سود کی قسط ادا کرنے کے لیے مہاجن کے پاس دوسرے گاؤں جانا پڑتا تھا ۔ ایسے ہی ایک دفعہ جب کسان سود کی رقم ادا کرنے کے لیے مہاجن کے گاؤں کی طرف روانہ ہوا اسے مہاجن راستے میں ہی مل گیا ۔ مہاجن اس وقت شہر سے لوٹ رہا تھا اور اب اپنے گاؤں واپس جا رہا تھا ۔ اسے دیکھتے ہی کسان بولا ۔ ’ ’ اچھا ہوا آپ سے یہیں ملاقات ہو گئی ۔ میں اپنا ا قرض ادا کر نے آپ ہی کی طرف جا رہا تھا ۔ ‘ ‘ مہاجن نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور بولا ۔ ’ ’ پھر چلو   میرے ساتھ ہی میرے گھر چلو کیوں کہ تمہارا سارا حساب کتاب جن کاغذات پر لکھا ہے وہ گھر پر ہی پڑے ہیں ۔
اب دونوں مہاجن کے گاؤں کی طرف چل پڑے ۔ دونوں باتیں کرتے چلے جا رہے تھے ، اچا تک مہاجن کے ذہن میں ایک خیال انجرا اور وہ کسان سے کہنے لگا ۔ ’ ’ ابھی میرا گاؤں کافی دور ہے ، اس لیے کیوں نہ ہم ایک دوسرے کو کوئی مزے دارسی کہانی سنائیں جس سے راستہ اور وقت آسانی سے کٹ جاۓ ۔ ‘ ‘ کسان اس کی بات مان گیا ۔ مہاجن بہت چالاک تھا ۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی طرح دوسروں کو بے وقوف بنا کر رقم اینٹھنے اور فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا ، اس لیے اس نے کسان کو بھی سادہ لوح سمجھتے ہوۓ ایک شرط رکھی کہ کہانی خواہ کتنی ہی جھوٹی کیوں نہ ہو دوسرا اسے جھوٹ نہیں کہے گا ۔
اگر کہانی کو سچ نہیں مانے گا تو اسے کہانی سنانے والے کو ایک ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا ۔ کسان بھی فورا یہ شرط مان گیا ۔ مہاجن دل ہی دل میں مسکرانے لگا کہ اچھا مرغا بھنسا ہے۔شرط کی وجہ سے یہ اختلاف کرنے کی ہمت نہیں کر سکے گا ۔ اگر یہ میری کہانی کو جھوٹا کہے گا تو میں اس سے شرط کے مطابق ایک ہزار روپے وصول کر لوں گا اور اگر سچ مانے گا تو مجھے اس کی بے عزتی کرنے میں بہت مزا آۓ
گا ۔ میسوچ کر وہ اپنی کہانی سنانے لگا ۔ ” میرے دادا اس علاقے میں سب سے زیادہ امیر کبیر تاجر تھے ۔ وہ ایک بار مال تجارت سے بھرے ہوۓ سو بحری جہاز لے کر تجارت کرنے نکلے ۔ انہوں نے پوری دنیا کا سفر کیا اور اپنا مال بیچ کر خوب دولت کمائی ۔ جب وہ گھر واپس آۓ تو ان کے پاس ایک حیرت انگیز چیز موجود تھی جو انہیں دنیا کے ایک کونے سے لی تھی ۔ ‘ ‘ وہ کیا ؟ ‘ ‘ کسان نے حیرت سے پوچھا ۔ مہاجن نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا ۔ ’ ’ سونے کا ایک قد آدم مجسمہ جو زندہ لوگوں کی طرح باتیں کرتا تھا ۔ ‘ ‘ مہا جن کا خیال تھا کہ اس بات پر کسان انچل پڑے گا اور کہہ دے گا کہ یہ تو مجھوٹ ہے ۔ اس طرح وہ شرط کے مطابق اس سے ہزار روپے وصول کر نے گا مگر کسان بھی کایاں تھا ، اس لیے سنجل کر بولا ۔ ’ ’ یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔ آگے بتاؤ کیا ہوا ؟ ‘ ‘ مہاجن نے برا سا منہ بنایا ، پھر کہنے لگا ۔
یہ مجسمہ بہت خاص تھا کیوں کہ یہ کسی بھی سوال کا جواب دے سکتا تھا ۔ چنانچہ اس پاس کے علاقوں سے لوگ اس کو دیکھنے اور اس سے اپنے سوالوں کے جواب پوچھنے آنے لگے ۔ ‘ ‘ اتنا کہہ کر اس نے کسان کی طرف غور سے دیکھا اور پھر بولا ۔ ایک دن تمہارے دادا بھی اپنے ایک سوال کا جواب پوچھنے میرے دادا کے پاس پہنچے ۔ انہوں نے مورتی سے پوچھا کہ اس زمین پر سب سے عقل مند لوگ کون ہوتے ہیں ۔مورتی نے حجٹ سے جواب دیا ۔ ’ ’ مہاجن لوگ ‘ ‘ اس کے بعد تمہارے دادا نے دوسرا سوال کیا ۔ ’ ’ اس زمین پر سب سے زیادہ بے وقوف لوگ کون ہیں تو مجسمہ پھر بول اٹھا ۔ ’ ’ کسان لوگ ‘ ‘ اب مہاجن کو یقین تھا کہ کسان اس بات پر ضرور اعتراض کرے گا لیکن کسان نے سر ہلاتے ہوۓ کہا ۔ ’ ’ یہ سچ ہے کہ سب سے زیادہ بے وقوف کسان لوگ ہی ہوتے ہیں ورنہ میں اتنے ں سے تمہیں اس قرض پر سود کیوں ادا کرتا چلا آ رہا ہوں جو میرے دادا نے تمہارے دادا سے لیا تھا ۔
‘ ‘ مایوس ہو کر مہاجن نے اپنی بات جاری رکھی ۔ اس کے بعد تمہارے دادا نے مورتی سے پوچھا کہ کسانوں میں سب سے زیادہ بے وقوف کون ہے ، تو پتا ہے مورتی نے کیا جواب دیا ؟ اس نے تمہارے دادا جی کا نام لیا ۔ یہ کہتے ہوۓ مہاجن کھلکھلا کر ہنسنے لگا ۔اب اسے یقین تھا کہ کسان ضرور اس کی بات کی مخالفت کرے گا ۔ اور اسے ہزار روپے حاصل کرنے کا موقع مل جاۓ گا مگر اس دفعہ بھی کسان نے اپنا سر ہلاتے ہوۓ کہا ۔ ’ ’ تم ٹھیک کہتے ہو ۔ ( اگر چہ مہاجن کی باتیں کسان کو بہت تکلیف دے رہی تھیں مگر اس نے کسی نہ کسی طرح برداشت کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ بھی مہاجن کو اسی طرح بدلہ دے گا جیسے وہ اسے پریشان کر رہا ہے ، اس لیے وہ چپ چاپ مہاجن کی کہانی سنتا رہا ۔
مہاجن دوبارہ کہنے لگا ۔ ’ ’ اب میرے دادا کے اس مجسمے کی شہرت بادشاہ تک پہنچ گئی ۔ وہ خود ہمارے گھر آیا اور اس نے میرے دادا کو اپنا وزیر اعظم مقرر کر دیا ۔ چونکہ تمہارے دادا بہت غریب آدمی تھے ، اس لیے میرے دادا نے دوستی نبھاتے ہوۓ تمہارے دادا کو بھی بادشاہ کے دربار میں دربان کی نوکری دلا دی ۔
 
وہ رات بھر خزانے والے کمرے کے باہر چوکی داری کرتا ۔ وہ اتنا بدصورت تھا کہ لوگ اس کی شکل دیکھ کر ڈر جایا کرتے تھے ۔ اس لیے چوروں کا وہاں گھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ یہ کہتے ہوۓ مہاجن قہقہہ لگاتے ہوۓ یوں ہنس پڑا جیسے وہ کسان کو طنز کر رہا ہو ۔کسان کو اس کی باتوں سے بہت تکلیف ہو رہی تھی مگر وہ ضبط کر رہا تھا ۔ اس نے بس اتنا کہا ۔ ’ ’ آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ بتایۓ اس کے بعد کیا ہوا ؟ ‘ ‘ مہاجن ایک دفعہ پھر کہانی سنانے لگا ۔ ’ ’ ایک دن تمہارے دادا نے میرے دادا سے کچھ روپے ادھار مانگے ۔
وہ جانتے تھے کہ تمہارے دادا کی ماہانہ تنخواہ صرف پچاس روپے ہے اور وہ بھی بھی سو روپے کا قرض واپس نہیں کر پائیں گے ۔ اس کے باوجود انہوں نے قرض دے دیا ۔
یہ وہی قرض ہے جو آج تک تم پر واجب الادا چلا آ رہا ہے ۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں ؟ ‘ ‘ کسان نے مجبوری کے عالم میں سر ہلاتے ہوۓ اس کی ساری بات مان لی۔مہاجن اپنی کہانی سے کسان کو ہرا تو نہ پایا اور نہ ہی اس سے شرط کے ہزار روپے جیت پایا لیکن وہ خوش تھا کہ اس نے کسان کو خوب بے عزت اور زچ کیا ہے ۔ ’ ’ اب تم اپنی کہانی سناؤ ۔ ‘ ‘ مہاجن نے کسان سے کہا۔اسے یقین تھا کہ کسان اس جیسی کہانی بھی بھی نہیں سنا سکتا ۔ اس لیے وہ ۔ جی ہی جی میں بہت خوش تھا ۔
کسان عاجزی سے بولا ’ ’ میری کہانی شاید آپ کی کہانی جیسی دل چسپ نہ ہولیکن میں سناتا ہوں ۔ ‘ ‘ یہ کہتے ہوۓ اس نے اپنی کہانی شروع کی ۔ ’ ’ میرے دادا پورے گاؤں کے امیر ترین کسان تھے۔صرف امیر ہی نہیں بلکہ وہ سب سے زیادہ خوبصورت ، شریف ، مہربان اور عقل مند بھی تھے ۔ ہر کوئی ان سے پیار اور عزت کرتا تھا ۔ گاؤں کے لوگوں کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو میرے دادا آسانی سے اسے حل کر دیتے تھے ۔ وہ ضرورت پڑنے پر لوگوں کو بغیر سود کے قرض بھی دیتے تھے ۔ “ ” یہ تو بہت اچھی بات ہے “ مہاجن نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔ کسان نے اپنی کہانی جاری رکھی ۔ ’ ’ ایک سال پورے علاقے
میں بہت سخت قحط پڑا ۔ تمام لوگ گاؤں چھوڑ کر جانے لگے لیکن میرے دادا نے گاؤں مچوڑ نے سے انکار کر دیا اور جو لوگ جا رہے تھے ان کی ساری زمینیں خرید لیں ۔ اس کے بعد میرے دادا نے دور دراز کے دریاؤں سے اپنے گاؤں تک لمبی لمبی نہریں بنوائیں اور اپنے کھیتوں تک پانی پہنچایا ۔ اس کے بعد اپنے گھر والوں کی مدد سے تمام زمین میں ہل چلا کر بیج بویا کیوں کہ باقی سب لوگ تو گاؤں چھوڑ چکے تھے ۔ اس سال فصل اتنی بھر پور اور اعلی معیار کی ہوئی کہ اس کی مثال اس سے پہلے بھی نہیں ملتی تھی ۔ ملک بھر سے الوگ غلہ خریدنے کے لیے میرے دادا کے پاس آ رہے تھے ۔ اس نے خوب منافع کمایا اور غریبوں میں بھی بہت کچھ تقسیم کیا ۔ ایک 
دیلی دن تمہارا دادا اس کے پاس نوکری مانگنے آۓ ۔ قحط میں اس نے ۔ سب کچھ کھو دیا تھا اور اس کی حالت بہت قابل رحم تھی ۔ اس کا لباس بچٹ کر چیتھڑوں میں تبدیل ہو چکا تھا اور اس نے کئی دن – سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا ۔ میرے دادا نے اسے پہلے کھانا کھلایا ۔ اچھے کپڑے پہنائے اور پھر اناج تولنے کے لیے اپنے پاس ملازم رکھ لیا ۔ تمہارے دادا غریب ہی نہیں ، اناڑی بھی تھے ۔ اس نے اپنی بے وقوفی سے اکثر میرے دادا کو نقصان پہنچایا لیکن میرے دادا نے مہربانی کرتے ہوۓ اسے بھی ڈانٹا نہ کام سے نکالا ۔ آخر جب سارا للہ بک گیا اور کوئی کام باقی نہ رہا تو تمہارے دادا کو جانا پڑا ۔ ‘ ‘ اس وقت تک دونوں باتیں کرتے ہوۓ مہاجن کے گھر پہنچ
چکے تھے ۔ کسان نے اس سے کہا کہ وہ جلدی سے اپنے نشی کو بلاۓ تا کہ جیسے ہی کہانی ختم ہو ، میں اپنے سود کی قسط ادا کر کے اپنے گھر واپس جا سکوں ۔ مہاجن نے اپنے نشی کو آواز دی تو وہ اپنے کاغذات لے کر ان کے پاس آن بیٹھا ۔ کسان دو بار و مہاجن سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ۔ کیا ۔ اب تک جو کہانی میں نے تمہیں سنائی ہے تم اس کو کی مانتے ہو ؟ ‘ ‘
مہاجن تو اس کی کہانی سن کر من ہی من کچ و تاب کھا رہا تھا ۔ گر اسے جھوٹا کہہ کر شرط کے مطابق ہزار روپے سے ہاتھ دھونا نہیں ۔ چاہتا تھا ، اس لیے بظاہر مسکراتے ہوئے بولا ۔ ہاں تم کی کہ رہے ہو ۔ اپنی کہانی مہاری رکھو ۔ کسان دوبارہ بولا ۔ ’ ’ کام ختم ہونے کے بعد اپنے گاؤں جانے سے پہلے تمہارے دادا نے میرے دادا سے ایک ہزار روپے ادھار مانگے تھے ۔ میرے دادا نے اپنی عادت کے مطابق اسے ایک ہزار روپے بغیر کسی سود کے اھار دے دیے ۔ تمہارے دادا نے یہ ہزار روپے بھی بھی واپس نہیں کیے۔
کیوں میں سچ کہہ رہا ہوں ناں ؟ “ مہاجن اس کی بات سن کر بہت جزبز ہو رہا تھا کیوں کہ وہ اپنے منشی کے سامنے اپنے دادا کی غربت اور برائی کے قصے نہیں سن سکتا تھا ۔ وہ چاہ رہا تھا کہ کسان اپنی کہانی جلدی جلدی ختم کر دے تا کہ اس کی جان چھوٹ جاۓ ۔ کسان دوبارہ کہنے لگا ۔ ’ ’ تو اس طرح تم پر میرے ایک ہزار روپے واجب الادا ہیں جو تمہارے دادا نے میرے دادا سے ادھار لیے تھے ۔ اگر میرے دادا سود لیتے تو اب تک یہ رقم بہت زیادہ ہو جاتی ۔ بہرحال اب یہ رقم تم مجھے واپس کر دو تا کہ میں اپنا حساب چکا سکوں ۔ ‘ ‘
اب مہاجن کو احساس ہوا کہ وہ تو اپنے ہی جال میں بری طرح پھنس گیا ہے ۔ اگر کہتا ہے کہ یہ کہانی جھوٹی ہے تو شرط کے مطابق ہزار روپے ادا کرنا پڑیں گے اور اگر اس کہانی کو سچ مانتا ہے تو دادا کے ادھار کے ہزار روپے ادا کرنا پڑتے ہیں ۔ اپنے نشی کے سامنے وہ بہت شرمندگی محسوس کر رہا تھا ۔ بہرحال اسے بادل نخواستہ اس کہانی کو سچ مان کر کسان کو دادا کے ادھار والے ایک ہزار روپے ادا کرنا پڑے ۔ ان روپوں کی مدد سے کسان نے اپنے دادا کا قرض ادا کیا اور اپنی زمین واپس چرا لی ۔ اس طرح کسان نے اپنی عقل مندی سے چالاک اور عیار مہاجن کو نہ صرف سبق سکھایا بلکہ اپنی زمین بھی واپس حاصل کر لی 

Leave a Comment