Black hole story kya hai بلیک ہول کی کہانی

کائنات کو جتنا گہرائی میں جا کر دیکھا جائے اتنی ہی پُر اسرار معلوم ہوتی ہے۔ انسان زمانہ قدیم سے ہی فلکیات میں دل چسپی رکھتا ہے مگر ابتداء میں اس کے پاس دور مین نہیں تھی ، اس لیے اس کے مشاہدات صرف ان چیزوں تک محدود تھے جنہیں سادہ آنکھ سے ہی دیکھا جا سکتا تھا۔ پھر ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ تحقیق کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور یوں کائنات کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کی جستجو بھی تیز تر ہوتی گئی۔) کھانے سے فارغ ہو کر حمنہ برتن سمیٹنے لگی اور ممی کے ساتھ کچن میں رکھوانے چلی گئی۔
ہاں جی! ہم کھانے سے پہلے کیا بات کر رہے تھے؟“ پاپا نے ہاتھ صاف کرتے ہوئے زمین سے پوچھا۔ پاپا! یہ بلیک ہول کیا ہے؟ اس کے بارے میں بتائیے پلیز زین کا فزکس کا ٹیسٹ ہونے والا تھا اور اس کی تیاری کے لیے وہ پاپا سے فلکیات کے باب پر سیر حاصل گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ ” ارے ارے… ابھی میرا سوال ختم نہیں ہوا تھا۔ یہ بلیک ہول کہاں سے آگیا ؟ حمنہ ممی کے ساتھ کچن کام ختم کروا کر جلدی سے پھر آ بیٹھی کیوں کہ پہلے کھانا آجانے کی وجہ سے اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی ۔
”ہاں بیٹا پہلے آپ پوچھو اور کیا پوچھنا چاہ رہی تھیں؟“ حمنہ جلدی سے پاپا کے پاس آبیٹھی اور تجسس سے پوچھا۔اور پاپا وہ .. ڈائنو سار بھی تو ہوا کرتے تھے نا؟”
”ہاں بالکل! وہ بھی ہوا کرتے تھے، بہت ہی بڑے سائز کے جان دار تھے جو بیک وقت زمین، فضا اور پانی میں رہا کرتے تھے، جن میں گوشت خور بھی تھے اور سبزی خور بھی۔
وہیل مچھلی زمین کی سب سے بڑی جان دار ہے۔ اگر وہ زمین پر رہ رہی ہوتی تو کوئی اس کو سنبھال نہیں سکتا تھا اور ڈائنو سار سائز میں وہیل مچھلی سے بھی بڑے ہوتے تھے لیکن پھر ایک شہاب ثاقب دنیا سے ٹکرایا اور وہ سب دیو ہیکل مخلوق تباہ ہو گئی۔ اس کے بعد ہی یہ دنیا چھوٹی مخلوق کے رہنے کے قابل ہوئی تھی۔ اس دور میں قدرتی آفات کے سبب جنگلات بھی زمین کے نیچے دفن ہو گئے تھے جو کروڑوں سال بعد اب کو نکلے، پٹرول اور گیس میں تبدیل ہو چکے ہیں جنہیں ہم روز مرہ
زندگی میں توانائی کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔“ وبس پاپا حمنہ کا سوال ختم ہوا اب بلیک ہول کے بارے میں بتائیے ۔ زین نے درمیان میں مداخلت کی کیونکہ اس کا ٹیسٹ تھا۔ ہاں بیٹا! اب وہی بتانے لگا ہوں ۔ پاپا اس کی بے تابی پر مسکرائے، اس صدی کے سب سے بڑے سائنس دان سٹیفن
ہاکنگ جن کی وفات 14 مارچ 2018 ء میں ہوئی تھی، انہوں نے بلیک ہول پر سب سے زیادہ تحقیقات کی تھیں۔ سائنس کی دنیا میں بلیک ہولز کے بارے میں بہت سے نظریات ہیں۔ کبھی انہیں دوسری کائنات میں جانے کا راستہ کہتے ہیں تو کبھی موت کا گڑھا کہا گیا۔ 2018ء کے آغاز میں ہماری اپنی کہکشاں (ملکی وے) کے مرکز میں ہزاروں بلیک ہول دریافت ہوئے ہیں۔“ پاپا کیا بلیک ہول واقعی سیاہ ہوتا ہے یا اس کو یہ نام دینے کی کوئی اور وجہ ہے؟“ زین نے پوچھا۔ جس طرح جان دار چیزوں کو موت آتی ہے، اس طرح ستاروں کو بھی اپنی مدت پوری کر کے موت آ جاتی ہے۔ جب ستارے کو موت آتی ہے تو وہ پھٹ جاتا ہے، اس کی تمام روشنی ختم ہو جاتی ہے اور وہ ایک سیاہ سوراخ (بلیک ہول ) بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسا عظیم سوراخ جو آس پاس کی چیزوں کو نگلنے لگتا ہے، جو چیز بھی اس کے قریب آتی ہے اس کی بے انتہا کشش کے باعث اس سے بچ نہیں پاتی ،حتی کہ روشنی کی کوئی کرن بھی وہاں سے نہیں نکل پاتی، اسی لیے اسے بلیک ہول کہا جاتا ہے۔ کوئی بھی ستارہ بلیک ہول اس وقت بنتا ہے جب اس کی کشش ثقل بے انتہا بڑھ جاتی ہے اور اس کے سارے مادے کو کسی چھوٹی سی جگہ پر قید کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر ہم اپنے سورج کو ایک ٹینس بال جتنی جگہ میں قید کر دیں تو یہ بلیک ہول میں تبدیل ہو جائے گا۔
مگر ہم ایسا کیوں کریں گے؟“ زین پریشان ہوتے ہوئے بولا۔ ارے بیٹا ہم ایسا نہیں کریں گے یہ تو میں نے مثال دینے کے لیے کہا ہے۔ جب ایک ستارہ اپنی مدت پوری کر کے ختم ہونے لگتا ہے تو اس کی کشش نقل بڑھتی جاتی ہے اور حجم کم سے کم ہوتا جاتا ہے حتی کہ وہ اپنے آپ میں منہدم ہو جاتا ہے۔ ہم اسے ستارے کا کینسر بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس طرح انسان میں اس کا ہی کوئی خلیہ باغی ہو کر تقسیم ہونے لگتا ہے اور بڑھتا چلا جاتا ہے اور ایک الگ گلٹی بنا لیتا ہے جو انسان کے لیے مہلک اور جان لیوا ثابت ہوتی ہے کیوں کہ اس بڑھتی ہوئی گلٹی کے آگے انسان کا مدافعتی نظام اتنا کمزور پڑ جاتا ہے کہ وہ اپنا دفاع نہیں کر پاتا اور مزاحمت کرنے کے قابل نہیں رہتا، بالآخر زندگی کی جنگ ہار جاتا ہے۔ اسی طرح جب ایک ستارے میں اس کی کشش ثقل اس کے کنٹرول سے باہر ہو
بیٹا یہ سب وحدت کا ئنات کے تحت ہوتا ہے، جو عوامل جان دار چیزوں میں پائے جاتے ہیں وہی عوامل بے جان چیزوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ئنات میں موجود ہر چیز کی بنیاد ایک طرح کے عوامل پر رکھی ہے، ہر شے میں برابری اور ہم آہنگی ہے۔ یہ تو ہم انسانوں کی تقسیم ہے کہ یہ جان دار ہے اور یہ چیز بے جان، جس پر اقبال نے کیا خوب کہا تھا:لہو خورشید کا ٹکے ہے، ذرے کا دل چیریں تو یعنی اگر ہم سورج کے بنیادی عناصر دیکھیں تو وہی ہوں گے جو ہماری مٹی میں موجود ریت کے ایک ذرے میں ہیں۔ “آپ سب لوگ ابھی تک یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا سونا نہیں ہے آج؟
ارے بھی صبح چھٹی ہے تو میں نے سوچا بچوں کو کہانی ہی سنا  دوں ۔ پاپا ہنستے ہوئے بولے۔ارے کہانی کیا مطلب؟ یہ اتنے بڑے ہو گئے ہیں اب بھی کہانی کی فرمائش کر رہے ہیں؟ ممی نے حیرانی سے کہا۔ ” کیوں بڑے بچے کیا کہانی نہیں سن سکتے می؟” حمنہ ممی سے لیٹتے ہوئے بولی۔ نہیں کیوں کہ بڑے بچے کہانی خود پڑھ سکتے ہیں۔” ممی نے حمنہ کو پیار کرتے ہوئے کہا۔ اور اگر وہ باتیں جو ہم جاننا چاہتے ہیں۔ ہمیں ہماری کتابوں میں نہ ملیں تو کیا کریں؟“ زین بولا۔ تو وہ باتیں بڑوں سے پوچھ لیتے ہیں۔” ممی نے سوچتے
ہوئے کہا۔ تو می ہم وہی کر رہے تھے ناں ! پاپا ہمیں کائنات اور بلیک ہول کہانی سنا رہے تھے اور کائنات کے بارے میں وہ باتیں بتا ئیں جو ہمیں نہیں پتا تھیں۔“ زین بولا ۔ ”اچھا تو یوں کہو ناں کہ تمہارے پاپا آسٹرو نامی کی کلاس لیے رہے تھے ۔ مسمی مسکراتے ہوئے بولیں۔ ” آپ بھی حد کرتی ہیں اگر بچے فلکیات کے بارے میں جاننا چاہ رہے تھے تو کیا میں ان کو نہ بتاتا ؟ یہ میرے بچے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ انہیں بھی میری طرح فلکیات سے دل چسی ہے، آپ کی طرح نہیں ہیں ۔ ” پاپا خفا ہو کر بولے۔ ارے ارے ناراض نہ ہوں آئندہ میں بھی آپ کی کلاس میں بیٹھوں گی، اب اندر چلیں سردی بہت ہے یہاں ۔ می نے پاپا کو ناراض ہوتے دیکھ کر بات بدلی تو پاپا کا موڈ ٹھیک ہو گیا کہ اور وہ سب ہنستے ہوئے اندر چلے گئے۔ ہو ہو

Leave a Comment