سونے کی اینٹ والا کنجوس

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی جگہ ایک امیر آدمی رہتا تھا اس کے پاس ڈھیروں کی جائیداد تھی ، سونا چاندی اس کے علاوہ تھا ۔ بڑے سے گھر میں شان سے رہتا تھا مگر صرف ظاہری شان سے کیوں کہ بیخص بلا کا کنجوس تھا ۔ اس کے بیوی بچے اور نوکر اس کی کنجوی سے عاجز آ چکے تھے ۔ کوئی بھی نوکر ان کے ہاں زیادہ عرصہ نہیں سکتا تھا کیوں کہ بیخص ان کی تنخواہ وقت پر نہ دیتا اور اگر دیتا تو حیلوں بہانوں سے کچھ رقم کاٹ لیتا ۔ اب ایسی صورت حال میں کون مفت کی چاکری کرتا ۔ ” کیا فائدہ ایسے مال و دولت کا جس سے کوئی فائدہ نہ ہو ۔ ‘ کبھی اس کی بیوی چڑ کر طعنہ دیتی تو وہ ناک پر انگلی رکھ کر حیرت کا اظہار کرتا ۔ ’ ’ بڑی ناشکری ہو ، دو وقت کا کھانا ، تن ڈھانپنے کو کپڑا سب میسر ہے تمہیں ، اور کیا چاہتی ہو ؟ ‘ ‘ وہ شخص غصیلی آواز میں غراتا ۔ ’ ’ ہاں ! اس سے اچھا کھانا کپڑا تو فقیروں کو بھی میسر ہوتا ہو گا ۔ ‘ ‘ بیوی جل کر کہتی ۔ ’ ’ تم ایک فضول خرچ عورت ہو ، تم تو چاہتی ہو کہ میں اپنی ساری جائیداد تمہارے اللوں تللوں میں اڑا دوں مگر بھول جاؤ میں ایسا ہرگز نہیں کرنے والا ‘ ‘ وہ اپنی بیوی کو فضول خرچ ہونے کا طعنہ
 یوں دیتا جیسے اسے بڑا کھلا خرچ دیتا ہو ۔ ’ ’ یہاں بحث کرنا ہی فضول ہے ۔ ‘ ‘ بیوی سامنے سے ہٹ جاتی ۔ ’ ’ اتنی بڑی جائیداد کوسنجالنا میرے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے ۔ کیوں ناں میں یہ جائیداد بیچ کر ایک بڑی ساری سونے کی اینٹ خرید لوں تا کہ اسے آسانی سے سنبھال لوں اور کوئی اسے استعمال بھی کر سکے ۔ ‘ ‘ ایک دن اس کنجوس شخص کو خیال آیا اور اس نے اپنے خیال کو عملی طور پر پورا کرنے کے انتظامات کرنا شروع کر دیے ۔ بیوی کو خبر ہوئی تو اس نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا ۔ ایسا مت کرو ، نقصان اٹھاؤ گے اور پھر زمینوں سے تھوڑی بہت جوفصل آتی ہے ہمارے حصے میں ، اس کا آسرا بھی جاتا رہے گا ، تو ہم کھائیں پئیں گے کیا ، کیسے گزارا کریں گے ؟ ‘ ‘ بیوی نے اسے اس کے ارادوں سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔ و تمہیں تو بس اپنے کھانے پینے کی فکر لگی رہتی ہے ۔ جاؤ بھئی سر نہ کھاؤ ، میں وہی کروں گا جو میرا دل چاہے گا ۔ تم اور یہ بچے تو بس سب کچھ کھا جاؤ اور تمہارا پیٹ نہ کھرے ‘ ‘ کنجوس نے اپنے دونوں بچوں کی طرف اشارہ کیا جو پلیٹ میں آم رکھ کر مزے سے کھا رہے تھے ۔ بیوی اس کا اشارہ سمجھ گئی ۔ ” کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے ہمیں بڑی عیاشی کرواتے ہو ۔ یہ 
ہمسائی نے بھجواۓ تھے جو میں نے اپنا دل مار کر بچوں کو دیئے ‘ ‘ وہ روہانسی ہو گئی ، آم اسے بھی بہت پسند تھے مگر اس شخص شادی کے بعد وہ ہر چیز کو ترس گئی تھی ۔ یونہی لڑتے جھگڑتے سارے دن گزر گئے ۔ بیوی کے بار بار سمجھانے کے باوجود شخص نے اپنی جائیداد بیچنے کی کوششیں جاری رکھیں ۔ آخر ایک دن اچھا گا ہک ملا تو اس شخص نے اپنی ساری جائیداد بیچ دی اور ایک بڑی اور بھاری سی سونے کی اینٹ خرید لے آیا ۔ بیوی نے دیکھا تو بے بسی سے خاموش بیٹھی رہی نے سونے کی اس اینٹ کو کپڑے میں لپیٹ کر صندوق
رکھ کر اسے تالا لگا دیا ۔ وہ شخص دن میں کئی بارصندوق کھول کر اپنی اینٹ کو دیکھتا ، اس پر ہاتھ پھیرتا اور خوش ہوتا رہتا ۔ اس کے بیوی بچوں کے حالات پہلے سے برے ہو گئے مگر اسے کہاں پرواہ تھی ۔ کنجوس کی بیوی کے ہاتھ میں ہنر تھا ۔ اس نے اردگرد کی بچیوں کو سلائی کڑھائی سکھانے کا کام شروع کر دیا اور یوں اپنی اور اپنے بچوں کی گزر بسر کرنے لگی ۔ تھوڑے عرصے میں اس کا کام اچھا خاصا چل نکلا تو سے زندگی میں تھوڑی سہولت محسوس ہوئی ۔ وہ کنجوس دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا کہ جو تھوڑا بہت بیوی بچوں پر خرچ کرنا ا پڑتا تھا اس سے جان چھوٹی اور اچھا کھانا پینا بھی ملنے لگا ۔ سردیوں کی راتیں تھیں ۔ ساری رات بارش ہونے کی وجہ سے
ٹھنڈ کی شدت میں اضافہ ہو گیا تھا ۔ رات کے اس آخری پہر ہر طرف ہو کا عالم تھا ۔ صحیح ہو گئی مگر ابھی تک ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ لوگ اپنے بستروں میں دبکے ہوۓ تھے ۔ کنجوس آدمی کی بیوی بھی بچوں کو لیے لحاف اوڑھے سو رہی تھی ۔ اس کی آکر کسی کے رونے کی آواز سے کھلی ۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔ اس کے دونوں بچے آرام سے سو رہے تھے تو پھر روکون رہا تھا ۔ وہ لحاف سے نکلی ، اپنے گرد گرم چادر لپیٹی اور کمرے سے باہر آئی ۔ باہر اب بھی بارش ہو رہی تھی اور شدید ٹھنڈ تھی ۔ وہ سردی سے کپکپا گئی ۔ اس نے غور سے سنا تو اسے لگا کہ رونے کی آواز اس کے
شوہر کے کمرے سے آ رہی تھی ۔ اس نے بڑھ کر شوہر کے کمرے کا دروازہ کھولا تو عجب منظر دیکھا ۔ اس کے شوہر کے سامنے سونے کی اینٹ والا صندوق کھلا ہوا تھا اور اپنا سر پیٹ پیٹ کر رو رہا تھا ۔ ’ ’ میں مارا گیا ، میں لٹ گیا ، ظالموں نے میری سونے کی اینٹ چوری کر لی ۔ ‘ ‘ بیوی کو دیکھ کر وہ اپنے سر کے بال نوچ نوچ کر اور زور سے رونے لگا ۔ بیوی نے آگے بڑھ کر دیکھا تو صندوق واقعی خالی تھا ۔ وہ خاموشی سے ایک سائیڈ پر کھڑی ہو کر اسے روتے پیٹتے دیکھنے لگی ۔ اس علاقے میں چوروں کا ایک بڑا گروہ گھس آیا تھا جو دن کے وقت بھیس بدل کر لوگوں کے گھروں کی سن گن لیتے اور ۔ رات کو چوریاں کرتے ۔ ( بقیہ صفہ نمبر ( 2   پر )

Leave a Comment