ایک ویرانہ، پانی اور بڑھیا

وہ تین دوست تھے : الطاف ، پرویز اور احمد ۔ ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور ایک ہی جگہ کام کرتے تھے ۔ چھٹی کے روز سیر و تفریح بھی اکٹھے کرتے تھے ۔ ان کا ایک دوست اور بھی تھا جو ان کے شہر سے دور ایک دوسرے شہر میں رہتا تھا ۔ اس کا نام امجد تھا ۔ تینوں دو تین ماہ بعد ، چھٹی کے روز صبح ہی صبح اس کے ہاں چلے جاتے اور پچھلے پہر واپس آ جاتے ۔ اس روز چھٹی تھی ۔ انہوں نے چار دن پہلے ہی امجد کے ہاں جانے کا پروگرام بنا رکھا تھا ۔ جمعے کی صبح ہوئی تو وہ تیار ہو کر گھروں سے نکل کر خوش خوش اپنے دوست کے گھر روانہ ہو گئے ۔ ایک مشکل پیتھی کہ امجد کا گھر نہ صرف بہت دور تھا بلکہ راہ میں ایک ایسے علاقے سے بھی گزرنا پڑتا تھا جو مدت سے ویران تھا اور جہاں کوئی آبادی نہ تھی ۔ یہ علاقہ کافی پھیلا ہوا تھا ۔
اس کے درمیانی حصے کو عبور کر کے انہیں اپنے دوست کے شہر میں جانا پڑتا تھا اور انہیں اس ویران علاقے سے گزرتے ہوۓ کوئی وقت نہیں ہوتی تھی کیونکہ وہ ادھر سے کئی بار گزر چکے تھے ۔ راستے سے بے خبر نہ تھے اور اگر چہ یہ علاقہ بڑا لمبا چوڑا تھا ، وہاں سے گزرتے ہوۓ انہیں بڑا لطف آتا تھا ۔ باتیں کرتے بنتے کھیلتے ، اپنی منزل پر پہنچ جاتے تھے ۔ اس روز بھی وہ مرے مرے سے قدم اٹھا رہے تھے کہ یکا یک ہوا چلنے گی ۔ ہوا تو پہلے بھی کبھی کبھی تیز ہو جاتی تھی مگر اس صبح جب وہ ویرانے کا قریب قریب آدھا حصہ طے کر چکے تھے ، یہ ہوا آندھی میں تبدیل ہو گئی ۔ یہ بھی کوئی گھبرانے کی بات نہ تھی مگر ہوا یہ کہ آندھی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گئی ۔
چاروں طرف اندھیرا چھا گیا اور شور اتنا کہ وہ ایک دوسرے سے بھی کچھ کہنے سننے میں دقت محسوس کرنے لگے ۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ کہیں رک کر آندھی کے تھمنے کا انتظار کر لیں ۔ اتنی تیز آندھی میں چلنا تو بڑا مشکل تھا ۔ چناں چہ وہ ایک جگہ ایک دوسر سے سے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو گئے اور انتظار کرنے لگے کہ آندھی کی شدت میں کمی آۓ تو دوبارہ چلیں ۔ انہیں کافی دیر تک رکنا پڑا اور جب آندھی ذرا کم ہوئی تو وہ چلنے لگے ۔
آندھی کی وجہ سے جو چاروں طرف اندھیرا پھیل گیا تھا ، وہ صحیح راستہ تلاش نہ کر سکے اور غلط راستے پر چل پڑے ۔ آخر آندھی آہستہ آہستہ تھم گئی لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں اس سے پہلے بھی نہیں آۓ تھے ۔ سب سے پہلے الطاف بولا ۔ ’ ’ یہ ہم کہاں آ گئے ہیں ؟ پہلے تو کبھی ادھر سے گز رنہیں ہوا تھا ۔ ‘ ‘ پرویز نے بھی یہی الفاظ کہے مگر احمد کی رائے تھی کہ وہ ٹھیک
راستے پر چلے جا رہے ہیں ، اس لیے اس راستے سے الگ نہیں ہونا چاہیے ۔ احمد اپنے دونوں دوستوں سے بڑا تھا اور ان کے مقابلے میں عقل مند بھی زیادہ تھا ۔ اس لیے وہ اس راہ پر چلنے لگے جس پر چل رہے تھے ۔ چلتے گئے ، چلتے گئے مگر راستہ تھا کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا تھا ۔ اب تو احمد کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا ۔ وہ رک کر سوچنے لگا کہ اب کیا کرنا چاہیے ۔ احمد نے کہا ۔ ’ ’ بہتر یہ ہے کہ ہم شمال کی طرف جانے کی بجاۓ اپنا رخ مشرق کی طرف کر لیں ۔
مجھے یقین ہے پیچ راستہ یہی ہے ۔ نہیں ، ہمیں مشرق کی طرف نہیں ، مغرب کی طرف جانا چاہیے ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ہم مغرب ہی کی طرف جایا کرتے تھے ۔ الطاف نے کہا ۔ احمد بولا ۔ ’ ’ بھئی ، اس وقت مغرب کی طرف جایا کرتے تھے ۔ اب تو نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں ۔ کچھ خبر نہیں ہمارا راستہ مشرق کی طرف ہے یا مغرب کی طرف بلکہ اب ہمیں مشرق کی طرف بھی نہیں جانا چاہیے ۔ ‘ ‘ ’ ’ تو تم کیا کہتے ہو ؟ ‘ ‘ الطاف نے پوچھا ۔
” میں تو کہتا ہوں ، ہمیں پیچھے چلنا چاہیے ۔ احمد کی اس تجویز کو الطاف اور پرویز دونوں نے نا پسند کیا ۔ وہ کہتے تھے کہ اتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم واپس جائیں گے تو امجد کے شہر نہیں جاسکیں گے    بلکہ کیا پتا کہاں آتی جائیں ۔ وہ پھر آگے چلنے لگے ۔ آندھی کے بعد سورج چمکنے لگا تھا اور گرمی بڑھتی جا رہی تھی ۔ ان کے بدن پینے سے شرابور ہو گئے تھے ، تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری ۔ یہی سمجھتے رہے کہ تھوڑی دور اور آگے جائیں گے تو اپنے دوست کے شہر میں داخل ہو جائیں گے ۔ گرمی کی وجہ سے بار بار ان کے قدم رک جاتے تھے ۔ چند منٹ مظہر کر پھر چلنے لگتے ۔ ان کی حالت خراب سے خراب تر ہو گئی گی ۔ ایک جگہ احمد بیٹھ گیا ۔ ” کیوں ؟ بیٹھ کیوں گئے ؟ ‘ ‘ الطاف نے پوچھا ۔ ’ ’ اب مجھ میں چلنے کی ہمت نہیں ہے ۔ پیاس سے دم نکلا جا رہا ہے ۔
پیاس ان دونوں کو بھی لگی تھی مگر انہوں نے اس کا اظہار نہ کیا ۔ وہ آدھ گھنٹا آگے چلے تھے کہ الطاف بولا ۔ ’ ’ پرویز ، احمد کی حالت ایسی نہیں کہ یہ چل سکے ۔ اسے سخت پیاس لگی ہے ۔ ‘ ‘ بہت سخت پیاس لگی ہے ۔ ‘ ‘ احمد نے تھوک نگلتے ہوۓ کہا ۔ ’ ’ تو اب کیا کر میں ؟ ‘ ‘ پرویز نے پوچھا ۔ الطاف نے مشورہ دیا ۔ ’ ’ احمد کو یہاں بیٹھ جانے دو ۔ میں اور تم کہیں سے ڈھونڈ کر پانی لاتے ہیں ۔ یہ مشورہ پرویز کو ٹھیک لگا ۔ احمد تو چاہتا ہی تھا کہ وہ کہیں بیٹھ جاۓ ۔ سفر جاری رکھنا اس کے لیے بہت مشکل تھا ۔ چناں چہ الطاف اور پرویز احمد کو ایک پیڑ کے نیچے چھوڑ کر ایک طرف روانہ ہو گئے ۔ انہوں نے سن رکھا تھا کہ اس ویرانے میں بھی دو تین مکان ہیں ۔
یہ مکان انہوں نے اپنی آنکھوں سے بھی نہیں دیکھے تھے ، بس ان کے بارے میں سنا ہی تھا ۔ آخر ایک گھنٹا چلنے کے بعد انہیں ایک جھونپڑی دکھائی دی ۔ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا ۔ دونوں اگرچہ بہت تھک گئے تھے مگر جونپڑی سامنے دیکھ کر ان میں ایسی ہمت پیدا ہو گئی کہ اس وقت وہاں پہنچ گئے ۔ حجونپڑی کا دروازہ بند تھا ۔ الطاف نے دستک دی تو چندلمحوں بعد کھل گیا ۔ ان کے سامنے دروازے میں ایک عورت کھڑی تھی جس کے چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں ۔ کافی بوڑھی لگتی تھی ۔ ” کہو ، کیا بات ہے ؟ ‘ ‘ عورت نے پوچھا ۔ پرویز نے اپنے آنے کا مقصد بتایا تو عورت انہیں جھونپڑی کے اندر لے گئی ۔ ایک طرف ایک گھڑا پڑا تھا ۔ وہ بولی ۔ ’ ’ یہاں پانی بڑی مشکل سے ملتا ہے ۔ میرا شوہر صبح سویرے یہ گھڑا پانی سے نجر کر مجھے دے جاتا ہے ۔ وہ شام کے قریب کام سے فارغ ہو کر آتا ہے ۔ میں سارا دن اسی گھڑے سے پانی پیتی ہوں ۔ آج بہت گری ہے ۔ آدھا گھڑا خالی ہو چکا ہے ۔ “ وہ دونوں پریشان ہو گئے کہ یہ عورت انہیں پانی نہیں دے گی ۔ مگر وہ بولی ۔ ’
ایک ویرانہ، پانی اور بڑھیا
’ دیکھو ، بیٹا ! میں آدھا پانی تمہیں دے دیتی ہوں ۔ باقی میں شام تک پیوں گی ۔ “ عورت نے مٹی کے ایک برتن کو پانی سے بھر دیا اور وہ دونوں اس کا شکر یہ ادا کر کے چلنے لگے ۔ عورت نے انہیں صحیح راہ بھی بتا دی تھی ۔ بھی وہ برتن الطاف اٹھا لیتا تھا اور بھی پرویز ۔ دونوں اس پیڑ کی طرف جا رہے تھے جہاں ان کا دوست احمد پانی کا انتظار کر رہا تھا ۔ ابھی انہوں نے آدھا راستہ طے کیا ہو گا کہ پرویز کہنے لگا ۔ ” پانی کافی ہے ۔ پیاس ہم دونوں کو بھی گئی ہے ۔ کیوں نہ تھوڑا تھوڑا پی لیں ۔ احمد کے لیے کافی بچ جاۓ گا ۔
 ‘ الطاف پہلے تو نہ مانا ، پھر راضی ہو گیا ۔ پہلے پرویز نے برتن ہونٹوں سے لگایا اور کئی گھونٹ بھر لیے ۔ پھر الطاف پینے لگا ۔ تھوڑی دور جانے کے بعد انہیں پھر پیاس لگی ۔ پرویز چاہتا تھا کہ کچھ اور پانی پی لے ۔ الطاف اسے پینے نہیں دیتا تھا ۔ پرویز برتن چھینے کی کوشش کرنے لگا ۔ اس چھینا جھپٹی میں برتن نیچے گرا اور ٹوٹ گیا ۔ اس میں جتنا پانی تھا ، سارے کا سارامٹی میں جذب ہو گیا ۔ دونوں کو بہت افسوس ہوا مگر اب کیا ہوسکتا تھا ۔
وہ یہ سوچ کر سخت شرمندہ ہو رہے تھے کہ ان کا دوست پیاسا تڑپ رہا ہو گا اور وہ خالی ہاتھ اس کے پاس جائیں گے ۔ پرویز نے کہا ۔ ’ ’ الطاف ، بڑھیا کے پاس صرف اس کے اپنے لیے پانی ہے ۔ اس سے مانگنا غیرمناسب ہو گا ۔ ‘ ‘ ’ ’ تو احمد کے لیے کیا کر میں ؟ ‘ ‘ الطاف نے پوچھا ۔ ’ ’ اس نیک عورت نے ہمیں صحیح راہ بتا دی ہے ۔ احمد کو ساتھ لے کر چل پڑیں گے اور جلد ہی امجد کے گھر پہنچ جائیں گے وہاں سب سیر ہو کر پی لیں گے ۔ ‘ ‘ بات ٹھیک تھی ۔ دونوں اپنے دوست کی طرف چل پڑے ۔ وہ ( وہاں پہنچے تو احمد درخت کے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔ وہ سخت شرمندگی کی حالت میں اس کے پاس گئے ۔ ’ ’ احمد ! ‘ ‘ پردیز بولا ۔ ’ ’ ہمیں افسوس ہے کہ پانی نہ لا سکے ۔ ‘ ‘
” مگر ہمیں صحیح راستہ معلوم ہو گیا ہے ‘ ‘ الطاف نے کہا ۔ ’ ’ اب ہم جلد ہی امجد کے گھر پہنچ جائیں گے ۔ تھوڑی دیر اور پیاس برداشت کر لو “ احمد نے انہیں غور سے دیکھا ۔ چند لمحے دیکھتا رہا ۔ پھر بولا : ’ ’ دوستو ! تم پانی نہ لا سکے ۔ خیر ، کوئی بات نہیں ۔ تمہارے جانے کے بعد مجھے پیاس نے سخت پریشان کر دیا ۔ میں نے تمہارا بہت دیر تک انتظار کیا ۔ تم نہ آۓ تو سوچا ، کیوں نہ خود کوشش کروں ۔ میں چل پڑا ۔ اللہ نے میری مدد کی اور میں ایک جھونپڑی کے دروازے پر پہنچ گیا ۔ اندر سے ایک بڑھیا نکلی ۔
اس نے بتایا کہ پہلے بھی دولڑ کے پانی لے گئے ہیں ۔ تم بھی لے جاؤ اور اس نے گھڑے کا سارا پانی ایک برتن میں ڈال کر مجھے دے دیا ۔ میں نے اپنی پیاس بجھائی اور تمہارے لیے پانی وہ رکھا ہے ۔ پی لو ‘ ‘ یہ سن کر الطاف اور پرویز کی شرم کے مارے ایسی حالت ہوگئی کہ وہ آنکھ اٹھا کر احمد کو دیکھنے کی ہمت بھی نہ کر سکے ۔ ***

( بقیہ : ” ساٹھ گاؤں بکری چر گئی ‘ )

مگر بکری نے جلدی سے پتا نگل لیا ۔ یہ دیکھ کر چرواہا چیخنے چلانے لگا ’ ’ میرے ساتھ گاؤں بکری چر گئی ! میرے ساٹھ گاؤں بکری چر گئی ۔ پھر اسے خیال آیا کہ رونا پیٹینا بے کار ہے ، بادشاہ کے پاس جانا چاہیے ۔ ہوسکتا ہے ، بادشاہ میری بات سن کر دوبارہ مجھے وہ حکم لکھ دے ۔ وہ بھاگم بھاگ شہر پہنچا اور بادشاہ کے محل کے دروازے پر جا کر شور مچانے لگا ۔ ’ ’ بادشاہ سلامت ! میں لٹ گیا ! میرے ساتھ گاؤں بکری چر گئی ! ہاۓ میں لٹ گیا ! میرے ساتھ گاؤں بکری چر گئی ۔ “ آخر سپاہی اسے بادشاہ کے پاس لے گئے ۔ بادشاہ نے اس کی بات سنی اور پھر کاغذ قلم منگوا کر ساٹھ گاؤں اس کے نام لکھ دیے ۔ اس طرح ’ ’ ساٹھ گاؤں بکری چر گئی ‘ ‘ ایک کہاوت بن گئی جس کے معنی ہیں ، سخت نقصان ہوا ، بہت گھاٹا ہوا ۔ ***

Leave a Comment